یہ کس ادا سے چمن سے بہار گزری ہے
سلگ سلگ کے تمنا ہزار گزری ہے
حیات دل کی اگر اک شب شمار کر بھی لوں
وہ ایک شب ہی بہت بے قرار گزری ہے
اڑا کے لے جو گئی دل کی سسکیاں بلبل
بھرے چمن پہ قیامت ہزار گزری ہے
صبا نے چھو جو لیا خوشبوؤں کے آنچل کو
جبین گل پہ شکن ناگوار گزری ہے
وفا اداس ہوئی تھی فریب کھا کھا کر
مری نظر سے مگر مشک بار گزری ہے
یہ کس مقام پہ پہنچی ہے جستجو دل کی
وصال رت تھی مگر سوگوار گزری ہے

38