ہم سے جو کبھی تم کو شکایت بھی رہی ہے
یہ ہم سے محبّت کی علامت بھی رہی ہے
کچھ آپ سے اپنا ہے تعلّق بھی پرانا
کچھ ہم کو روایت سے محبّت بھی رہی ہے
اک غنچۂ گل صبح ، چٹکتے ہوئے بولا
ساتھی مرا سورج کی حرارت بھی رہی ہے
کمزور بڑھاپے نے کِیا جو ، سو کِیا ہے
بیماری سے کچھ اور نقاہت بھی رہی ہے
کچھ آپ کی صحبت میں نہیں خشک مزاجی
کچھ اپنی طبیعت میں شرارت بھی رہی ہے
موسم کے بدلنے کا اثر باقی ہے اب تک
ماحول میں ہلکی سی تمازت بھی رہی ہے
کچھ رشتہ ہمارا بھی محبّت سے جُڑا ہے
کچھ آپ کی ہم پر تو عنایت بھی رہی ہے
حالات ہی بدلے ہیں ابھی دل نہیں بدلے
اپنوں سے محبّت کی روایت بھی رہی ہے
طارق ہمیں اس دور میں عزّت جو ملی ہے
شاید کہ سبب اس کا ولایت بھی رہی ہے

0
124