اے سخنور اُٹھ کہ وابستہ ہے تُجھ سے انقلاب
تھام لے اپنا قلم اب چھوڑ طاؤس و رباب
پھیلتا جاتا ہے بحر و بر میں ہر جانب فساد
دیکھ لے اخلاق سے عاری ہوئے اہلِ کتاب
دہریوں سے کیا گلہ ان کا خدا کوئی نہیں
اب خدا والوں پہ بھی آئے نظر اس کا عتاب
دسترس دل تک نہیں ہے نور کی پردے پڑے
روشنی تو دے رہے ہیں آفتاب و ماہتاب
رہبروں میں اہلِ دانش کا بڑا فقدان ہے
آ گیا سیلاب کہتے ہیں نظر آئے سراب
ہوش میں لانا ہے ان کو بھی سلیقے سے ہمیں
جن کی گھٹّی میں پڑا ہے رات دن پینا شراب
خود سری لالچ تعصّب ضد ہے اور ذاتی مفاد
مل کے ساری کر رہی ہیں عادتیں ان کو خراب
دے کے دروازے پہ دستک گر جگائیں گے نہ ہم
کیا بچائیں گے وہ طارق جو رہیں گے محوِ خواب

0
27