دِل سے تمہاری یاد کو مِٹنے نہیں دیا
جو بھی دیا ہے زخم وہ بھرنے نہیں دیا
آنکھوں کا آنسوؤں پہ ذرا ضبط دیکھئے
ٹھہرے رہے زمین پہ گرنے نہیں دیا
ایسا نہ ہو کہ یونہی مُجھے کھو نہ دے کہیں
اِس ڈر سے مُجھ کو خُود سے بھی مِلنے نہیں دیا
یوں تو اُگائے عُمر بھر اُس نے گُلِ فراق
چاہت کا ایک پھول بھی کِھلنے نہیں دیا
اُس کا تھا خواب مُجھ کو بُلندی پہ دیکھنا
سو اُس نے مُجھ کو خاک میں مِِلنے نہیں دیا
موجوں میں تیرتی ہوئی دہشت کے خوف سے
دریا میں اُس نے مانی اُترنے نہیں دیا

0
79