کاش پورا یہ خواب ہو جائے
زندگی لاجواب ہو جائے
امتحاں زندگی کا ہو اور تُو
امتحاں کا نصاب ہو جائے
تُجھ پہ ہر روز شعر لکھتا رہوں
تُو غزل کی کتاب ہو جائے
کامیابی کو فخر ہو تُجھ پر
جب تِرا انتخاب ہو جائے
تشنگی کب رہے مرے دل کو
آنکھ جب بھی پُر آب ہو جائے
وصل کی بھی سبیل نکلے گی
گر نہ حائل حجاب ہو جائے
بخشے جائیں سبھی ہمارے گناہ
رحم جو بے حساب ہو جائے
طارق اُس راہ پر مسلسل چل
جس پہ تُو کامیاب ہو جائے

0
49