اب تو ایسا کوئی قانون بنایا جائے
سچ کہے جو بھی اسے سولی چڑھایا جائے
اس لئے بھی ترے عشّاق گرفتار ہوئے
اپنے سینے پہ تِرا نام کڑھایا جائے
اب تو سورج بھی سوا نیزے پہ آ پہنچا ہے
اب تو سوئے ہوئے لوگوں کو جگایا جائے
ہیں کہاں میرے وفادار صدا آتی ہے
عہد جو باندھ کے بیٹھے ہیں نبھایا جائے
وقت پر پانی جو برسایا گیا ہے پھر سے
وہ تو ہر پیاسے کو جی بھر کے پلایا جائے
آ گیا ہے کوئی گلشن کی حفاظت کے لئے
سُرخ پھولوں سے ہر اک رہ کو سجایا جائے
صُور پھونکا ہے کسی نے تو قیامت آئی
کھول کر کان یہ بہروں کو سنایا جائے
شادیانے تو خبر دیتے ہیں اب منزل کی
جانے کون اترے کسے آگے چلایا جائے
دیر تک ہم سے وہ ناراض نہیں رہ سکتے
اب تو روٹھے ہوئے لوگوں کو منایا جائے
آزمائش کی گھڑی جب بھی کبھی آئی ہے
کون تیّار ہوا ہم کو بتایا جائے
طارق آیا ہے جو سچ سامنے واضح ہو کر
جھوٹ کو کر کے برہنہ بھی دکھایا جائے

0
29