رکھی ہے فطرتِ انساں میں جستجو تیری |
دکھائے آئنہ تصویر چار سُو تیری |
نہ جانے کتنے تجھے ڈھونڈنے نکلتے ہیں |
سفر میں رکھتی ہے کتنوں کو آرزو تیری |
ہمیشہ پاتا ہے اعزاز وہ جہاں بھر میں |
عزیز جس نے بھی رکھی ہے آبرو تیری |
نگاہ نیچی رہی ، گر چہ بات ہوتی رہی |
میں سُن رہا تھا تخیّل میں گفتگو تیری |
دکھایا اس نے ہے رستہ مجھے ترے گھر کا |
کتاب جب بھی پڑھی ، ہو کے با وضو تیری |
جو حُسنِ خُلق میں تیرا ہی اک نمونہ تھا |
اسے جو دیکھا تو صورت تھی ہُو بہو تیری |
حیا کی سر پہ ردا ، سُرخ عارض و لب ہیں |
کلی ہے جو بھی کِھلی ، اس میں پائی بُو تیری |
تجھے ہے شوق اسے دیکھنے کا پر طارق |
نظر بھی ہےجو اسے دیکھے روبرو ، تیری |
معلومات