رکھی ہے فطرتِ انساں میں جستجو تیری
دکھائے آئنہ تصویر چار سُو تیری
نہ جانے کتنے تجھے ڈھونڈنے نکلتے ہیں
سفر میں رکھتی ہے کتنوں کو آرزو تیری
ہمیشہ پاتا ہے اعزاز وہ جہاں بھر میں
عزیز جس نے بھی رکھی ہے آبرو تیری
نگاہ نیچی رہی ، گر چہ بات ہوتی رہی
میں سُن رہا تھا تخیّل میں گفتگو تیری
دکھایا اس نے ہے رستہ مجھے ترے گھر کا
کتاب جب بھی پڑھی ، ہو کے با وضو تیری
جو حُسنِ خُلق میں تیرا ہی اک نمونہ تھا
اسے جو دیکھا تو صورت تھی ہُو بہو تیری
حیا کی سر پہ ردا ، سُرخ عارض و لب ہیں
کلی ہے جو بھی کِھلی ، اس میں پائی بُو تیری
تجھے ہے شوق اسے دیکھنے کا پر طارق
نظر بھی ہےجو اسے دیکھے روبرو ، تیری

2
44
کیا خوب کہی ہے

0
بہت شکریہ ذیشان صاحب!

0