دل کی زباں پہ میرے بس اک سوال ہے
دیکھو ذرا پلٹ کر عاشق بے حال ہے
شام و سحر پریشاں ہوں ہجرِ یار میں
دردِ جگر کو میرے شوقِ وصال ہے
شاہیں کا بچّہ اب تو کرگس کا یار ہے
وہ فتنہ گر حسینہ شیطاں کا جال ہے
تعریفِ حسنِ جاناں کرنے کو کردوں میں
لیکن وہ نازنیں تو نازک خیال ہے
حوروں کے مثل چہرہ آنکھیں کمال ہیں
عارض سے تھوڑا ہٹ کر تل بھی دھمال ہے
ہرنی کی جیسی چالیں خانہ بدوش کی
وہ خوبرو حسینہ مثلِ ہلال ہے
اس نا سمجھ کو کیسے سمجھاؤں فلسفہ
اس کے بغیر جینا اب تو محال ہے
کم حوصلہ نہیں ہوں ثانی ؔ مگر اسے
افسانہ بے خودی کا کہنا محال ہے

1
105
شکریہ