دل کی زباں پہ میرے بس اک سوال ہے |
دیکھو ذرا پلٹ کر عاشق بے حال ہے |
شام و سحر پریشاں ہوں ہجرِ یار میں |
دردِ جگر کو میرے شوقِ وصال ہے |
شاہیں کا بچّہ اب تو کرگس کا یار ہے |
وہ فتنہ گر حسینہ شیطاں کا جال ہے |
تعریفِ حسنِ جاناں کرنے کو کردوں میں |
لیکن وہ نازنیں تو نازک خیال ہے |
حوروں کے مثل چہرہ آنکھیں کمال ہیں |
عارض سے تھوڑا ہٹ کر تل بھی دھمال ہے |
ہرنی کی جیسی چالیں خانہ بدوش کی |
وہ خوبرو حسینہ مثلِ ہلال ہے |
اس نا سمجھ کو کیسے سمجھاؤں فلسفہ |
اس کے بغیر جینا اب تو محال ہے |
کم حوصلہ نہیں ہوں ثانی ؔ مگر اسے |
افسانہ بے خودی کا کہنا محال ہے |
معلومات