دشت میں لیلیٰ سے ملنے ہی اگر جانا تھا |
سب جہاں چھوڑ کے مجنوں نے اُدھر جانا تھا |
عشق گر آگ میں کودا تو وہ زندہ ہے ابھی |
عقل پیمانہ اگر ہوتی تو مر جانا تھا |
مجھ کو الزام نہ دو پھر سے چلا آیا ہوں |
کیا بھلا میں نے یہاں آنے سے ڈر جانا تھا |
میں ترے چاہنے والوں میں نہ ہو جاتا اگر |
میرے اندر بھی کسی زہر نے بھر جانا تھا |
کاٹ ڈالے تھے مرے پر بھی قفس کے اندر |
میں جو اُڑتا بھی کہاں اُڑ کے دگر جانا تھا |
میں اسے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا |
ورنہ دامن مرا ہو کر یہاں تر جانا تھا |
بند کرتے رہے سب روزنِ زنداں میرے |
کھول کر میرے لئے کیا کوئی در جانا تھا |
ہے گماں لوگوں کا باز آئے ہیں دینے سے پیام |
ہم نے جو کرنا تھا وہ ہم نے تو کر جانا تھا |
طارق امّید بھروسہ ہے توکّل باقی |
روند کر پاؤں تلے ، ہم نے بھی ، شر، جانا تھا |
معلومات