خواہشِ محفل ہے نا سرو و سمن کی آرزو |
مجھ کو ہے شاعر تری بزمِ سخن کی آرزو |
نہ کہیں بلبل نہ رنگ و بُو نہ گُلچیں کا وجود |
کس کو ہوگی اب وہاں ایسے چمن کی آرزو |
التفاتِ دوستاں رُخصت ہؤا ایسا کہ اب |
شہر سے بڑھکر ہمیں صحرا و بَن کی آرزو |
جب کوئی خواہش بروئے کار آ سکتی نہیں |
برملا کہہ دو وہاں والّلہ کفن کی آرزو |
تن بدن اپنا ہی جس کا ہو رہینِ کشمکش |
خاک کر سکتا ہے وہ سیمیں بدن کی آرزو |
کاش اتنی راحتیں ہوتیں کہ یوں کہتے امید |
کچھ نہیں درکار بس دار و رسن کی آرزو |
معلومات