محور حزیں کے فکر کی مدحت حبیب کی ہے
اور آرزو میں پنہاں چاہت حبیب کی ہے
الطاف عام ان کے سارے جہان پر ہیں
یہ خُلق ہے نبی کا الفت حبیب کی ہے
آدابِ آدمیت سیکھا جہاں نے ان سے
قرآں کی شرح اے دل سیرت حبیب کی ہے
دستِ خیال کو بھی خوشبو ہے دان تیرا
کنزِ نفوسِ خوباں نکہت حبیب کی ہے
پر نور فکرِ جاں سے افکار کے افق ہیں
تاباں کرے جو نامہ طاعت حبیب کی ہے
ممکن کہاں گنوں میں ان کے محاسنوں کو
پردے میں خردِ سے بھی عظمت حبیب کی ہے
محمود لینا دینا دنیا سے کب ہے تیرا
سب سے کمال دولت قربت حبیب کی ہے

41