محور حزیں کے فکر کی مدحت حبیب کی ہے |
اور آرزو میں پنہاں چاہت حبیب کی ہے |
الطاف عام ان کے سارے جہان پر ہیں |
یہ خُلق ہے نبی کا الفت حبیب کی ہے |
آدابِ آدمیت سیکھا جہاں نے ان سے |
قرآں کی شرح اے دل سیرت حبیب کی ہے |
دستِ خیال کو بھی خوشبو ہے دان تیرا |
کنزِ نفوسِ خوباں نکہت حبیب کی ہے |
پر نور فکرِ جاں سے افکار کے افق ہیں |
تاباں کرے جو نامہ طاعت حبیب کی ہے |
ممکن کہاں گنوں میں ان کے محاسنوں کو |
پردے میں خردِ سے بھی عظمت حبیب کی ہے |
محمود لینا دینا دنیا سے کب ہے تیرا |
سب سے کمال دولت قربت حبیب کی ہے |
معلومات