وہ لمحہ پھر خوشی بن کر بھی آئے
ہمارے گھر وہ خود چل کر بھی آئے
ہم اس کے سامنے ہیں وہ ہمارے
مرے خوابوں میں یہ منظر بھی آئے
بہار آئی چمن میں گُل کھلے ہیں
گلاب احمر ، شجر اخضر بھی آئے
ہوا جب دُور سایہ بادَلوں کا
تو نکلا چاند بھی اختر بھی آئے
ذرا احساس تو ہو تشنگی کا
تو بادَل کو ہوا لے کر بھی آئے
اگر دُکھ دل کو پہنچے ہے ضروری
کوئی موتی تو پلکوں پر بھی آئے
کہانی نے لیا ہے موڑ کب سے
دکھانے راستہ رہبر بھی آئے
بدل ڈالا ہے ظاہر میں نے اپنا
یہ تبدیلی مرے اندر بھی آئے
مرے اندر جو لاوا پک رہا ہے
پھٹے آتش فشاں باہَر بھی آئے
ہمیں طارق فقط کعبے سے مطلب
ابابیلوں کا گر لشکر بھی آئے

0
93