در پہ دستک دیا کرے کوئی
دل یہ آہٹ سدا سُنے کوئی
شام کی تیرگی سے پہلے ہی
اپنے دل میں دیا جلے کوئی
شہر تنہائیوں سے ڈرتا ہے
اُس سے ملنے چلا چلے کوئی
دل کسی کا نہ سُن کے بھر آئے
یوں نہ آہیں بھرا کرے کوئی
مجھ سے ڈر کر گلے وہ ملتا ہے
یہ نہ اس کو گِلہ رہے کوئی
میری یادوں میں روز آتا ہے
کیسے کہہ دوں ہُوا پرے کوئی
زندگی کے اداس لمحوں میں
اُس کے در پر جُھکا کرے کوئی
طارقؔ اس سے سکون ملتا ہے
ہے یہ بندہ مِرا کہے کوئی

0
54