پہنچ رہا ہے وہ چلتی ہوئی ہوا پہ مجھے |
دیا گیا تھا جو پیغام اک حرا پہ مجھے |
فرشتہ ہوتا میں اس کی جو سن لیا کرتا |
ضمیر ٹوکتا رہتا ہے ہر خطا پہ مجھے |
سلوک پیار کا ایسا کیا ہے ظالم نے |
کہ دل نے خود کہا اس کے لئے دعا پہ مجھے |
سبق پڑھا ہے محبّت کا جس نے بچپن میں |
یقیں ہمیشہ رہا اس کی ہی وفا پہ مجھے |
سوال گل نے کِیا کیوں نہیں یہ گل چیں سے |
جدائی کی یہ سزا دی ہے کس خطا پہ مجھے |
ہمیشہ میری مدد کو تو اک وہی پہنچا |
یقین کس نے دلایا مرے خدا پہ مجھے |
کبھی کبھی وہ مرا پیار آزماتا ہے |
ہمیشہ ناز رہا اس کی اس ادا پہ مجھے |
کھلا ہے اُس کا خزانہ جو مانگ پاتا نہیں |
تو کوستا ہے مرا دل بھی اس حیا پہ مجھے |
ہے طارق آج وہی بادشہ دلوں کا بھی |
بھروسہ ایک اسی کی رہا عطا پہ مجھے |
معلومات