دشمن کو تو ہم یوں کبھی خاطر میں نہ لائے |
اپنوں کو بھی دیکھا ہے ، مگر ہوتے پرائے |
ماضی کے دریچوں میں بھی جھانکا تو یہ دیکھا |
پہلے بھی ستم ہم پہ ، زمانے نے ہیں ڈھائے |
جب جب بھی ہوئے شمع ، بجھانے کے وہ درپے |
دیکھے ہیں ، اندھیروں کے ، سمٹتے ہوئے سائے |
یہ عشق کے شعلے تو بجھے ہیں ، نہ بجھیں گے |
آداب محبّت کے ، انہیں کون سکھائے |
ہم جان ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں کب سے |
دنیا ہمیں کیوں موت کی دھمکی سے ڈرائے |
پہلو میں مرے بیٹھ کے ، دل اس کا ہوا ہے |
کیا حسن کے جلووں نے ہیں ، اعجاز دکھائے |
روحوں کو تھی امّید ، کہ اب اترے گا پانی |
ساقی بھی کوئی آئے گا جو پیاس بجھائے |
جب آ گیا منہ پھیر لیا ایسے انہوں نے |
جیسے کوئی دلدوز خبر ان کو سنائے |
اب سب کے لئے اذنِ دعا پھر سے ہوا ہے |
بخشش کے طلب گار ہوئے ہاتھ اُٹھائے |
طارق نے اشاروں میں جو اظہار کیا ہے |
الفاظ میں جذبوں کے ہیں طوفان سمائے |
معلومات