میں جواں ہوں میرے سینے میں حسیں تصویر ہے |
پر مگر محبوب مجھ کو قوم کی تعمیر ہے |
یہ ذرا سا ہند میرے شوق کو بھاتا نہیں |
میرے آگے منتظر تو عالمی تسخیر ہے |
ہو اگر مرشد کوئی تو ذرہ بھی خورشید ہے |
خطۂ دوزخ نما بھی وادیِ کشمیر ہے |
نو جوانوں کو کرو بیدار ملت کے لئے |
نوجواں ہی قوم کی کھوئی ہوئی تقدیر ہے |
عزم لیکن کوہ شکن ہے حوصلہ شاہین کا |
پاسبانِ قوم ہے یہ برہنہ شمشیر ہے |
خواب دیکھی تھی کبھی جو ملتِ مرحوم نے |
نوجواں اس خواب کی شرمندۂ تعبیر ہے |
ہوگیا ہے کیا مگر ان نو جوانوں کو خدا |
راہِ لیلی میں ہراک ہی مجنوۓ دلگیر ہے |
کوئی بتلاؤ انہیں کہ وارثِ بزمِ جہاں |
یہ جہانِ رنگ و بو تیری ہی بس جاگیر ہے |
عزم سے خالی دلِ بےباک سینے میں ترے |
ہاں مگر تیری زباں پر نعرۂ تکبیر ہے |
یوں تو فانی زندگی کے واسطے کوشش تمام |
پائیداری کے لئے بھی کیا کوئی تدبیر ہے |
میرے اندازِ نگارش میں خدا تاثیر دے |
جانتا ہوں میں کہ میری بے اثر تحریر ہے |
اب تو یوں لگتا ہے اے دل! تو اکیلا رہ گیا |
جادۂ مہر و وفا کا آخری رہگیر ہے |
یہ ضروری تو نہیں ہر بات دل پر جا لگے |
مانتا ہوں تو اے واعظ ! ماہرِ تقریر ہے |
دل میں آیا لکھ دیا اب کیا صحیح اور کیا غلط |
یہ سمجھ لو کہ دلِ شاہی ؔ کی یہ تفسیر ہے |
نوجواں سے اب تلک آباد ہے یہ گلستاں |
نوجواں سے ملک و ملت تا ابد ہے جاوداں |
معلومات