سوچے تھے جتنے خواب وہ کب کے ہوا ہوئے
دنیا کے رمز و ایما پہ سجدے ادا ہوئے
ناپید تو نہیں ہیں یہاں سارے با وفا
اک مَیں ہی تھا کہ جس سے سبھی بے وفا ہوئے
ہر اک کی زندگی میں نشیب و فراز ہیں
ایسے بھی ہیں یہیں پہ جو دائم گدا ہوئے
وہ خوش نصیب تھے جنہیں منزل تو مل گئی
ہم بے سبب ہی کوئے بتاں میں فنا ہوئے
قرضے ادا ہوئے تو مری آئی جاں میں جاں
دیکھا پلٹ کے جب تو کچھ اس سے سوا ہوئے
ڈرتا ہوں سوچ سوچ کے گزرے دنوں کی یاد
فطرت تھی پاک باز تو کیوں کر گنہ ہوئے
توبہ کی گود میں ڈھلا ہے مغفرت کا عکس
اللّہ کی دین جس سے سبھی با شفا ہوئے
لکھتا ہوں اسلئے کہ پڑھا ہے فقیر کو
دنیا کے سارے شعر گو جس پر فدا ہوئے
شاعر ہے وہ حضورَِ رسالت مآب کا
اس دعوے پر شہادتِ ارض و سما ہوئے
لکھنا تو چاہتا ہوں بہت کچھ مگر امید
علم و حروف دانشِ خامہ ہوا ہوئے

0
43