سوچے تھے جتنے خواب وہ کب کے ہوا ہوئے |
دنیا کے رمز و ایما پہ سجدے ادا ہوئے |
ناپید تو نہیں ہیں یہاں سارے با وفا |
اک مَیں ہی تھا کہ جس سے سبھی بے وفا ہوئے |
ہر اک کی زندگی میں نشیب و فراز ہیں |
ایسے بھی ہیں یہیں پہ جو دائم گدا ہوئے |
وہ خوش نصیب تھے جنہیں منزل تو مل گئی |
ہم بے سبب ہی کوئے بتاں میں فنا ہوئے |
قرضے ادا ہوئے تو مری آئی جاں میں جاں |
دیکھا پلٹ کے جب تو کچھ اس سے سوا ہوئے |
ڈرتا ہوں سوچ سوچ کے گزرے دنوں کی یاد |
فطرت تھی پاک باز تو کیوں کر گنہ ہوئے |
توبہ کی گود میں ڈھلا ہے مغفرت کا عکس |
اللّہ کی دین جس سے سبھی با شفا ہوئے |
لکھتا ہوں اسلئے کہ پڑھا ہے فقیر کو |
دنیا کے سارے شعر گو جس پر فدا ہوئے |
شاعر ہے وہ حضورَِ رسالت مآب کا |
اس دعوے پر شہادتِ ارض و سما ہوئے |
لکھنا تو چاہتا ہوں بہت کچھ مگر امید |
علم و حروف دانشِ خامہ ہوا ہوئے |
معلومات