تم بھی اس لفظ کے کچھ اور ہی معنی کرتے
تم نے دیکھا ہی نہیں اس سے محبّت کر کے
یہ محبّت کا تقاضا نہیں اخلاق میں ہے
تھام لیتے ہیں گرے کوئی تو آگے بڑھ کے
اتنا پیچیدہ نہیں عرش کا رستہ ورنہ
لفظ واں کیسے پہنچ جاتے اڑانیں بھر کے
اس لئے شام ہوئی مجھ کو بھی آتے آتے
تُجھ تک آنے کے نہیں اتنے بھی آساں رستے
تو جو ہو سامنے کب اُٹھے مری اب بھی نگاہ
اب بھی حسرت ہے تجھے دیکھوں کبھی جی بھر کے
دشت ویراں نہ رہا دل میں جو سیلاب آیا
ابر آنکھوں سے بہت نور کے تڑکے برسے
طارق آئے گی صدا جب تو سبھی چل دیں گے
خوف طاری ہے مگر ایک اسی کے ڈر سے

0
64