اوس بھی اتری ، اشکوں کے سنگ آدھی رات کے بعد
دیکھے ہم نے الفت کے رنگ آدھی رات کے بعد
نیند نہ آئے جب تک اس کی یادیں ساتھ رہیں
سپنوں میں وہ کرتا ہے تنگ آدھی رات کے بعد
چھوڑنے کب دے نیند کو بستر ، کھینچے یار کی چاہ
جذبوں کی چھڑ جاتی ہے جنگ آدھی رات کے بعد
ظلمت میں ہی اتریں گھر پہ ظالم لوگ حریص
دیکھ کے ان کو ہوتے ہیں دنگ آدھی رات کے بعد
اشکوں کے پانی سے دُھل کر اترے میل کچیل
صاف دلوں کے ہوتے ہیں زنگ آدھی رات کے بعد
طارق اُٹھ کر تم بھی روٹھا یار منا لو آج
ہوتے ہیں کچھ نرم کبھی سنگ ، آدھی رات کے بعد

0
74