سلطانِ کل جہاں ہے لیکن خبر نہیں |
واعظ کے وعظ میں اب بالکل اثر نہیں |
مجنوں کی طرح تو بھی صحرا میں جا نکل |
تیری نواۓ دل میں سوزِ جگر نہیں |
نقشِ قدم پے والد کی جو نہ چل سکے |
گو پیرِ کل جہاں ہو قابل پسر نہیں |
منزل کی جستجو سے جو بے خبر رہے |
رہزن ہے تیری رہ کا وہ راہ بر نہیں |
بازوۓ مردِ مومن خالی ہے سیف سے |
دستِ قلم بھی لیکن ہے بے خطر نہیں |
حالاتِ ناگہاں سے گھبراۓ جس کا دل |
وہ مرد ہے وَ لیکن مردِ نڈر نہیں |
نعرے ہزار اسکے دل میں جگر نہیں |
تلوار کیا ہے وہ جو ہو کار گر نہیں |
تو بھی سیاستِ ہندی کا ہے ہم نوا |
تو خونِ حکمراں ہے روحِ عُمَر نہیں |
پیغامِ حق سنایا جس نے جہان کو |
اوروں پہ مہرباں ہے خود پر نظر نہیں |
یہ وقت اتحادِ ملت کا ہے امم! |
اس وقت تو اے مسلم! ہرگز بکھر نہیں |
پروازِ مرغِ ہستی ازبر نہیں تجھے |
شاہیں کا تجھ کو لیکن ہے بال و پر نہیں |
قوموں کی زندگی اب تجھ پر ہے منحصر |
معمارِ قوم ہے تو ، تو سنگِ در نہیں |
منزل تری جہاں ہے تسخیرِ کل جہاں |
پھرتا ہے دربدر کیوں تو رہ گزر نہیں |
اس دورِ پر فتن میں ہر شخصِ با اثر |
دنیا سے باخبر ہے خود کی خبر نہیں |
اسرارِ داغِ ہستی رمزِ حیات ہے |
تو بحرِ بے خودی ہے بے خود مگر نہیں |
یہ طفلِ ناداں مکتب شاہی ؔ کمال ہے |
پر شوق یہ جواں ہے گو با ہنر نہیں |
معلومات