گرچہ گنے نہیں گئے سود و زیاں میں ہم
شامل رہے ہیں ابتدا سے کارواں میں ہم
طوفاں میں آ پڑے نہ کہیں بر سرِ زمیں
تنکے تو چن کے لائے تھے اس آشیاں میں ہم
جاں دے کے گرچہ اس کی حفاظت تو ہم نے کی
اب لوگ پوچھتے ہیں کب آئے مکاں میں ہم
پایا ہے اُس کو اپنی شہِ رگ سے بھی قریب
ڈھونڈا کیے تھے جس کو کبھی لا مکاں میں ہم
گزری جو ہم پہ عشق میں وہ جانتا تو ہے
پھر بھی کبھی بتائیں گے اپنی زباں میں ہم
سجدہ کریں جو فرش پہ پہنچے وہ عرش پر
وہ ہر طرف ہے دیکھیں کہاں آسماں میں ہم
قصّے نہ ہم سے پوچھئے ہجر و وصال کے
کھوئے گئے ہیں لذّتِ دردِ نہاں میں ہم
گلشن میں رنگ و بُو جو خبر دے بہار کی
دیکھیں گے جشن کا بھی سماں بوستاں میں ہم
طارق وصالِ یار سے جب آشنا ہوئے
رہتے ہیں انبساطِ شبِ جاوداں میں ہم

2
53
عمدہ

0
بہت شکریہ عثمان علی صاحب!