گرچہ گنے نہیں گئے سود و زیاں میں ہم |
شامل رہے ہیں ابتدا سے کارواں میں ہم |
طوفاں میں آ پڑے نہ کہیں بر سرِ زمیں |
تنکے تو چن کے لائے تھے اس آشیاں میں ہم |
جاں دے کے گرچہ اس کی حفاظت تو ہم نے کی |
اب لوگ پوچھتے ہیں کب آئے مکاں میں ہم |
پایا ہے اُس کو اپنی شہِ رگ سے بھی قریب |
ڈھونڈا کیے تھے جس کو کبھی لا مکاں میں ہم |
گزری جو ہم پہ عشق میں وہ جانتا تو ہے |
پھر بھی کبھی بتائیں گے اپنی زباں میں ہم |
سجدہ کریں جو فرش پہ پہنچے وہ عرش پر |
وہ ہر طرف ہے دیکھیں کہاں آسماں میں ہم |
قصّے نہ ہم سے پوچھئے ہجر و وصال کے |
کھوئے گئے ہیں لذّتِ دردِ نہاں میں ہم |
گلشن میں رنگ و بُو جو خبر دے بہار کی |
دیکھیں گے جشن کا بھی سماں بوستاں میں ہم |
طارق وصالِ یار سے جب آشنا ہوئے |
رہتے ہیں انبساطِ شبِ جاوداں میں ہم |
معلومات