ہے کائنات جس کی آمد سے سرخرو
اک روز سرورِ دیںﷺ تھے محوِ گفتگو
وہ شہسوارِ فردا وہ مردِ با شعور٘
آخر ہوا ہے کیا جو ایماں سے وہ ہے دور٘
مکّہ سے چل کے آیا وہ نوجواں مدینہ
دربارِ مصطفیٰﷺ میں رکھا دلِ نگینہ
موتَہ میں رومیوں کے چھَکّے چھڑاۓ اس نے
یرموک میں شجاعت کے گل کھلائے اس نے
اسلام کی یہ تلوار لہرائی کل جہاں پر
ایران و روم و فارس کے عزم اور گماں پر
وہ فاتحِ یگانہ، وہ فاتحِ زمانہ
شام و عراق اس کی جرأت کا اک نمونہ
افسانہ خواں ہے اس کا دنیاۓ رنگ و بو یہ
لیکن پسند اس کو گردِ رہِ مدینہ
آتش کدوں کو جس نے غرقاب کر دیا تھا
دنیا کے بت کدوں کو احزاب کر دیا تھا
وہ نو جواں مسلسل لڑتا ہے معرکوں میں
جس کے نشاں ہیں اب تک دنیا کے بت کدوں میں
اس نو جواں کی حسنِ تدبیر کو لکھوں کیا
جس نے احد میں جنگَ کا پانسہ پلٹ دیا تھا
خالدؔؓ ہے نام اس کا شمشیرِ بے نیام
جس نے کہ رومیوں کا تختہ الٹ دیا تھا
جرأت کی داستاں سے جرأت نشاں کیا ہے
پیغام اس جواں نے ہم سب کو یہ دیا ہے
بیباک دل، جگر، جاں ہو گر کسی جواں میں
مرتا نہیں کبھی بھی وہ شیرِ نر جہاں میں
آتش فشاں شرارے ہمدوشِ آسماں ہے
لیکن یہ حوصلہ ہو جس دل میں وہ کہاں ہے
وقتِ قضا معین ہے بزمِ رنگ و بو میں
ہر سمت جال پھیلا ہے کاخ اور کو میں
اے کاش موت آتی میداں میں ارجمندَ
خالدؔ کبھی نہ مرتا بستر پہ دردمندَ
ہے موت زندگی صد اس مرد کے لئے
رکھتا ہے دل کو زندہ جو درد کے لئے
اٹھو کہ اے جوانو! ہو تم اسی نسل سے
دوہراؤ طرزِ آبا ہو تم نڈر ازل سے
ہو ہر زباں پہ کلمہ توحید کا فسانہ
لوحِ جہاں پہ لکھ دو اسلام کا ترانہ
ہے انقلاب تیرے شعلوں کی خامشی میں
چنگاریِ پریشاں میں راکھ کی بجھی میں
شاہیں جگر ہے تو بھی شاہیؔ ہے خون تیرا
دنیا کو زیر کر لے پھر سے جنون تیرا
انا الفارس الضدید ؀ انا خالد بن ولید

2
43
الحمد لله

اصلاح فرمائیں