جو تم نہیں تو ہزاروں میں جی نہیں لگتا
خزاں کی چھوڑو ، بہاروں میں جی نہیں لگتا
ہمیں کوئی نہ ملا آج تک جو کہتا ہو
ہمارا ان دنوں یاروں میں جی نہیں لگتا
یہ ہم جو ہجرتوں کے تجربے سے گزرے ہیں
نہیں یہ بات کہ پیاروں میں جی نہیں لگتا
لپٹ کے لہر سے دریا میں جو بڑھیں آگے
وہ لاکھ چاہیں کناروں میں جی نہیں لگتا
جنہیں یقین ہو زندہ خدا کے ہونے کا
کبھی پھر ان کا مزاروں میں جی نہیں لگتا
اگر فساد ہی ڈالا گیا ہو گھُٹی میں
تو عافیت کے حصاروں میں جی نہیں لگتا
سخن شناس ہی آتے ہیں تیری محفل میں
وہ جن کا عقل کے ماروں میں جی نہیں لگتا
اب آ ہی جائے نظر میں ہماری منزل بھی
ہمارا راہ گزاروں میں جی نہیں لگتا
کہیں سے تم بھی سواری کا انتظام کرو
پیادہ پا کا سواروں میں جی نہیں لگتا
رہی ہے گردشِ شام و سحر یونہی طارق
تمہارا کیسے مداروں میں جی نہیں لگتا

0
23