دکھ کا قصہ سنایا جاتا ہے
بانٹ کر غم بھلایا جاتا ہے
زندہ جل کر ہی راکھ ہوتے ہیں
مر کے پھر کیوں جلایا جاتا ہے
قافلہ وقت پر نکلتا ہے
ہرکسی کو چلایا جاتا ہے
سیدھے رستے پہ ہیں جو انکو ہی
راستے سے بھٹکایا جاتا ہے
چند بڑوں کے مفاد کی خاطر
خون سب کا بہایا جاتا ہے
وعدہ ہوتا ہے توڑنے کے لیے
وعدہ پھر کیوں نبھایا جاتا ہے
جس کا شعلہ زرا زیادہ ہو
اس دیئے کو بجھایا جاتا ہے

0
51