ہجر میں دردِ دل بڑھے تو آہِ شب فراز کر
خود پہ جو شرم سار ہو دستِ دعا دراز کر
دوستوں دشمنوں سبھی سے ہو جو بات صاف ہو
ان کے خلاف تُو کوئی دل میں نہ ساز باز کر
پردہ دری نہ ہو کسی کی ہو جو عام گفتگو
قُرب کی ہوں جو ساعتیں ان میں بیان راز کر
نغمۂ جاں فزا سنا گیت کوئی نیا سُنا
تُجھ کو ملیں سماعتیں ایسا بلند ساز کر
تجھ سے وہ کام لے خدا جس سے ہو سب کا فائدہ
راضی ہو تُجھ سے ذات وہ پیدا کوئی جواز کر
فائدہ کیا ملے گا تو کرتا رہے گا جب حسد
سوختہ آگ میں نہ ہو خود کو گنہ سے باز کر
حسن کا دیکھ آئنہ اپنی بصارتیں بڑھا
یونہی نہ بے دھڑک اُٹھا چشمِ حیا پہ ناز کر
تیری وفا کا ذکر اب پھر سے زباں پہ عام ہو
تُجھ کو ملا جو بادشہ اس کا بنا ایاز کر
طارق جو نعمتیں ملیں اس کی ہیں سب عنایتیں
تُو بھی کسی کے کام آ عمر کو یوں دراز کر

31