حصہ اول
وہ اک دن مجھ سے گھر پر ملنے آئی
مجھے آ کر خبر کچھ یوں سنائی
مجھے ہیرے کی انگوٹھی دکھائی
کہا اب اس سے آگے ہے جدائی
وہ کہتی تھی اسے میں بھول جاؤں
اور اس کا نام بھی لب پر نہ لاؤں
اسے لوٹا دوں اس کی ہر نشانی
زخم پھر دل کا خود سے بھی چھپاؤں
حصہ دوم
نہ تم خود ہو نہ کوئی بھی نشاں ہے
میں زندہ ہوں کہ یہ بس اک گماں ہے
اکیلا ہوں میں سگرٹ کا دھواں ہے
تمھارے بن یہ مجھ پر اب عیاں ہے
یہ میری زندگی اب رائیگاں ہے
اکیلا ہوں میں سگرٹ کا دھواں ہے
مرے اندر کوئی اندھا کنواں ہے
مرے دل میں مسلسل اک فغاں ہے
اکیلا ہوں میں سگرٹ کا دھواں ہے
مجھے دھوئیں میں دکھتی ہر جگہ ہو
یہ تم ہو یا کوئی ریگِ رواں ہے
اکیلا ہوں میں سگرٹ کا دھواں ہے
دھواں ہی تو اکیلا مہرباں ہے

0
51