آہ ، حسرت ، بزمِ ہستی ! داستاں کیسے کہوں |
دل پہ جو گزری قیامت اس کو میں کیسے لکھوں |
دربدر کی ٹھوکریں ہیں، زخمِ دل بھرتا نہیں |
کر گیا برباد مجھ کو آخرش میرا جنوں |
مضطرب ،بے چین فطرت ،ہوگئی ہے زندگی |
کوئی ہے غمخوار میرا مجھ کو جو لا دے سکوں |
کیوں کروں نہ زخمِ پنہا کو زمانے پر عیاں |
ہوں سراپا درد تو پھر میں کسی سے کیوں چھپوں |
کر گیا فریاد بھی ، خاموش بھی میں رہ لیا |
پھر بتا اے چارہ گر کہ بے سبب میں کیوں مروں |
کب وہ دن آئے گا ساقی مے کشوں میں ہو شمار |
سوزشِ قلب و جگر سے کب تلک آخر جلوں |
شمع سے بیزار پروانہ اگر ہوتا ہے ہو |
میں نہ بجھنے دوں گا لیکن آتشِ شمعِ دروں |
سن ذرا یارانِ محفل میں کوئی مجنوں نہیں |
کارہائے زندگی سے بے خبر ،غافل رہوں |
کیوں امیرِ کارواں ہوتا ہے مجھ سے بد گماں |
کیا اسے دکھتا نہیں ہندی نژادوں کا فسوں |
با دلِ ناخواستہ مے کش کو اہلِ انجمن |
دے رہے ہیں جام و مینا میں بھلا کیوں کر پیوں |
بزم میں رسوا ہوا ہوں اہلِ محفل ہیں خفا |
واعظا ! اب تو بتا یہ میں کہ آخر کیا کروں |
جو سزا دینی ہے دے دے جرمِ بادہ خواری کی |
آج میں بیٹھا ہوں ساقی عینِ محفل سرنگوں |
زندگی عہدِ وفا سے گو مکر جاۓ مری |
یہ مگر نہ ہو سکے گا آپ جیسا میں بنوں |
چھوڑ کر اوجِ ثریا کی بلندی ہم نشیں |
چاہتے ہیں وہ کہ پستی میں رہوں خوار و زبوں |
بے تکی باتوں سے گر آتی ہے تجھ میں آگہی |
پھر تو میں بھی مے کدہ میں جابجا کیوں نہ بَکوں |
جام و مینا مے کشِ ہندی پہ ہوگا سوگوار |
میکدہ سنسان ہو جائے گا جس دن نہ رہوں |
ہو نمایاں ہستیِ بے باک میری بزم میں |
ذرے ذرے میں رہوں میں کوہساروں میں بسوں |
حسرتِ دیرینہ اک دن آۓ گی بر دیکھنا |
دل مرا کہتا ہے مجھ سے کوششِ پیہم کروں |
ہے ابھرنا فطرتِ ہستی صفت سیلِ رواں |
پھر خس و خاشاکِ گلشن سے بھلا کیوںکر دبوں |
ظلم کی شمشیرِ بے زنہار سے بے خوف ہوں |
کٹتی ہے تو کٹنے دو گردن مگر کیوں کر جھکوں |
کررہی ہے جو نظارہ میری چشمِ دور بیں |
ہے یہی اس کا تقاضا بزدلوں میں نہ رہوں |
ہے یہی ہندی مسلماں کے لئے راہِ نجات |
میں یہی کہتا رہوں گا جب تلک زندوں میں ہوں |
گرچہ ناقص ہی سہی ہستی ہے اپنی جاں فشاں |
یہ نہیں مجھ کو گوارا میں کہ مُردوں میں جیوں |
جستجوۓ یار میں گرچہ ہے صحرا کی تپش |
مقصدِ ہستی ہے اپنا بن کے دیوانہ پھروں |
دے رہا ہے حوصلہ عزم و جنوں شاہؔی مرا |
ہے زمانہ میرے دم سے کیوں زمانے سے ڈروں |
معلومات