سپنے میں جب نبی جی تشریف لائیں گے
ہر حالِ دل یہ آنسو ان کو سنائیں گے
دیں گے مجھے دلاسا میرے کریم پھر
کچھ دیپ چاہتوں کے دل میں جلائیں گے
بطحا میں چاہوں گا میں ہو وقت آخری
امید ہے وہ طالع میرے جگائیں گے
اور قبر مانگ لوں گا روضہ کی راہ میں
قدموں سے مٹی خود ہی زائر لے جائیں گے
ہوں گے یہ ذرے تاباں پھر چاند سے سوا
جب جلوے مصطفیٰ کے ان پر بھی آئیں گے
ہر خیر جن کے صدقے کونین کو ملی
نغمے اسی حسیں کے یہ ذرے گائیں گے
الطاف ان کے گننا ہر دم محال ہے
برزخ میں امتی کے وہ کام آئیں گے
محشر کے ہیں وہ شافی یزداں کے حکم سے
اپنے غلاموں کو وہ جنت لے جائیں گے
لطف و کرم نبی کا محمود عام ہے
در پر کریم آقا تجھ کو بلائیں گے

29