ہے بشر کی زندگی کیا کہو آفتاب سرِ شام ہے
سو ہمیں بھی ہونا پڑا فنا کہ حباب کو کیا دوام ہے
نہ تو اختیار نہ ہی بے بسی کہو موت ہے یا ہے زندگی
نہ تو ظلمتوں کی خبر کوئی نہ ہی روشنی کا پیام ہے
تری یادوں کا وہ ہجوم ہے مرے دل میں پھر سے جو دھوم ہے
مرے رونے کا اہتمام ہے مرے درد کا انتظام ہے
یہ جو جل رہا ہے چراغ سا یہ جو اٹھ رہا ہے شرار سا
ہے جو دل کی ظلمت میں روشنی کوئی آفتاب لبِ بام ہے
یہ جو دل کا دریا ہے موجزن تری رو سے ساحل ہے پاش پاش
تری چالِ خود سر تو ہے ہی یہی ہاں یہی تو تیرا خرام ہے
اسے چھوئیے اسے چومیے پہ نظر سے ایسے نہ دیکھیے
جو حلال مے ترے لب سے ہے وہی مے لبوں سے حرام ہے
وہی رسم وہی جسم ہے وہی جرم ہے وہی ظلم ہے
وہی بے کسی وہی خامشی وہی بندگی سرِ عام ہے
مری ذلتیں وہ مصیبتیں وہ ندامتیں ترے واسطے
تری الفتیں تری شہرتیں تری تہمتیں مرے نام ہیں

0
34