ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
نیا ہردن زمانے کو نئی اک رہ دکھاتا ہے
غبارِ رہ گزر کو منزل ِ پیما دکھاتا ہے
سراپا گند ہو جس کی حقیقت اس کو یہ دنیا
زمیں پر رہ گزر لیکن فلک پر مہ دکھاتا ہے
نہیں جن کو سیاست سے تعلق اک ذرہ ان کو
بٹھا کر راج گدی میں تماشا پھر دکھاتا ہے
قفص میں بند کر شاہیں کو خوں آنسو رُلاتا ہے
چراغِ رہ گزر لیکن یہ بلبل کو دکھاتا ہے
یکایک ہر گھڑی ہر دن سجاتا ہے نئی دنیا
خموشِ دل میں ہے پنہا جو وہ حسرت دکھاتا ہے
خوشی نا ہو مجھے اشعار میرے ہیں ہی ایسے کے
نگاہے چشم گمرہ کو نیا رستہ دکھاتا ہے
تمنا ہے مری یارب عطا کردے یہ جوہر کے
میں دنیا کو دکھادوں وہ مجھے جو تو دکھاتا ہے
مگن ہے ہر کوئی اپنے تصور میں یہاں ساقی
یہاں ہر شخص ثانی کو نو مے خانہ دکھاتا ہے

43