شام ہوتے ہی پنچھی تو گھر جائیں گے
بے ٹھکانہ مسافر کدھر جائیں گے
ہاتھ پر ہاتھ رکھّے نہیں بیٹھے ہم
اپنے اپنے سبھی کام پر جائیں گے
فکر کیوں جب حقیقت ہیں سب جانتے
آج زندہ ہیں جو کل وہ مر جائیں گے
ہم ہیں مالا میں موتی پروئے ہوئے
ایک ٹوٹا تو سارے بکھر جائیں گے
سامنے اس کو آنے کی جراَت نہیں
جو سمجھتا ہے ہم اس سے ڈر جائیں گے
زندگی کی علامت ، نہیں سانس ہی
دل نہ دھڑکا اگر تو کدھر جائیں گے
خم بدست اپنا ساقی ، جو گھر آ گیا
ہم بھی بادہ لئے ، در بدر جائیں گے
دور رہ کر جو طارق ، نہ جانے ہمیں
ہم سے مل کر وہ کیوں بے خبر جائیں گے

0
62