تھی شب طویل چاند ستارے نکل آ اے
ہم سیر کو در یا کے کنارے نکل آ اے
سوچا تھا کون ہوں گے مخالف ہمارے یاں
مُڑ کر جو دیکھا اپنے ہی سارے نکل آ اے
پہچان کر ہمیں کہ یہ ہیں کس قبیل سے
آنکھوں میں شیخ جی کے شرارے نکل آ اے
چنگل میں ان کے پھنس گئے اتنے میں ناگہاں
کچھ غیب سے ہمارے سہارے نکل آ اے
ہم نے سلام جن کو تکلّف سے کر دیا
بچھڑے ہوئے وہ دوست ہمارے نکل آ اے
ہم سے بھی ایک بار ہوا اتّفاق یہ
ہم گُم گئے تو رہنُما تارے نکل آ اے
معصوم صرف یوسفِ کنعاں نہ تھا اسیر
کچھ قید ہیں کہ گھر سے سپارے نکل آ اے
قربانیٔ حسین کے بارے پتہ نہیں
پر شامِ غم منانے بچارے نکل آ اے
کرتے ہیں اعتراض یہ کہہ کر بھی دوستو
کیوں گھر کو چھوڑ درد کے مارے نکل آ اے
طارق جہاں بھی ہم گئے تنہا نہیں رہے
یادوں کی تہہ میں کتنے ہی پیارے نکل آ اے

0
80