پوچھا کہ ہم انا پہ کیوں اپنی اڑے رہے |
کہنے لگی کہ پاؤں زمیں میں جڑے رہے |
میں نے کہا کہ وقت تو آگے نکل گیا |
بولی جہاں کھڑے تھے وہیں پر کھڑے رہے |
بولی کہ اپنے دل یہاں پتھر کے ہو گئے |
میں نے کہا کہ وقت جو ہم پر کڑے رہے |
کہنے لگی کہ دھوپ تھی اپنے نصیب میں |
اک دائمی خزاں تھی کہ پتے جھڑے رہے |
بولی کہ پانیوں نے بھی ہم سے وفا نہ کی |
اپنے نصیب میں یہی کچے گھڑے رہے |
میں نے کہا کہ حل کوئی سوجھا نہ کیوں ہمیں |
کہنے لگی کہ عقل پہ تالے پڑے رہے |
معلومات