پوچھا کہ ہم انا پہ کیوں اپنی اڑے رہے
کہنے لگی کہ پاؤں زمیں میں جڑے رہے
میں نے کہا کہ وقت تو آگے نکل گیا
بولی جہاں کھڑے تھے وہیں پر کھڑے رہے
بولی کہ اپنے دل یہاں پتھر کے ہو گئے
میں نے کہا کہ وقت جو ہم پر کڑے رہے
کہنے لگی کہ دھوپ تھی اپنے نصیب میں
اک دائمی خزاں تھی کہ پتے جھڑے رہے
بولی کہ پانیوں نے بھی ہم سے وفا نہ کی
اپنے نصیب میں یہی کچے گھڑے رہے
میں نے کہا کہ حل کوئی سوجھا نہ کیوں ہمیں
کہنے لگی کہ عقل پہ تالے پڑے رہے

0
77