دعویٰ کرنے کو تو کرتے ہیں زمانے والے |
کم ہیں دنیا میں محبّت کو نبھانے والے |
دودھ پینے کو ہیں تیّار یہاں سب مجنوں |
پر کہاں ملتے ہیں اب ، جان لُٹانے والے |
مال و دولت کی محبّت میں گرفتار ہیں پر |
چھوڑ جاتے ہیں یہیں ، دنیا سے جانے والے |
وہ جو مخلوق کی خدمت کو ہیں تیّار یہاں |
ہیں وہی جا کے وہاں اجر بھی پانے والے |
دن کو کھو بیٹھے اسے رات کمایا جو بھی |
ایسے گھاٹے میں رہے ، یار کمانے والے |
بانٹتے پھرتے ہیں خوشیاں جو زمانے بھر کو |
لاکھ مل جائیں انہیں اپنا بنانے والے |
ہو اگر درد مریضوں کو مسیحا کوئی |
آسماں سے بھی اتر آتے ہیں ، آنے والے |
ڈھونڈ طارق اسے جو روح کو سیراب کرے |
یو ں تو مل جائیں بہت پینے پلانے والے |
معلومات