جدا ہے جہاں اُن کے دیوانوں کا
حدف ہے سوا جن کے مستانوں کا
کجا ضوفشانی سخی سے ملی
درخشاں ہوا دل ہے پروانوں کا
دہر کے یہ داتا سخی مصطفیٰ
بھرم رکھتے ہیں ہم سے نادانوں کا
عطا عام جن کی ہے جگ میں سدا
وہ مانگیں بھلا اپنے بیگانوں کا
خدا ان کو کہتا ہے خُلقِ عظیم
بنے چارہ ہیں جو پریشانوں کا
کیا منہدم جس نے طاغوت کو
ہے رہبر جہاں میں وہ انسانوں کا
اے محمود اس کا کرم عام ہے
بنایا چمن جس نے ویرانوں کا

54