دیکھ کر نمبر مرا اس نے کنارہ کر لیا
دیکھا جائے گا کبھی کہہ کر گوارا کر لیا
جتنا جی چاہو چھپاؤ پردہ داری میں رہو
زاویوں کی اوٹ میں ہم نے نظارہ کر لیا
روٹیاں تھیں تین جبکہ کھانے والے چار تھے
بیٹا مَیں بھُوکی نہیں ماں نے گوارا کر لیا
گر ذرا ہلکی سی اُکتاہٹ ہوئی رشتوں کے بیچ
مَیں نے تھوڑی آڑ لی اس نے کنارہ کر لیا
راستے میں مِل گئے اک دن کہا کیا حال ہے
لال چہرہ ہو گیا لیکن نظارہ کر لیا
طینِ لازب سے ہوئی تھی ابتدا میری مگر
اپنی پستی دیکھ کر مٹّی کو گارا کر لیا
آؤ اب واپس چلیں کب تک رہیں امید یاں
جتنا رہنا تھا رہے اچھّا گزارہ کر لیا

63