بتلائیں کیا ہمیں اسے ملنے سے کیا ملا
عرفانِ ذات ہو گیا اپنا پتا ملا
صدمات اپنے دیکھ کے تھے دل گرفتہ ہم
بھولے سبھی ہمیں جو وہ غم آشنا ملا
منزل کا کچھ پتہ نہیں تھا جب چلے تھے ہم
اس کی عطا سے پھر ہمیں اک رہنما ملا
اس نے دکھا دیا ہمیں منزل کا راستہ
جو لے چلا ہمیں اسی کا نقشِ پا ملا
دیکھا خدا کا عکس جو انساں کے روپ میں
ہر ذرّہ اس کے حسن کا پھر آئنہ ملا
رستے میں لڑکھڑائے بھی نازک قدم تھے جو
اس سے مگر وفا کا ہمیں حوصلہ ملا
طارق سفر پہ جب چلے خود اس نے تھاما ہاتھ
بھٹکے ہوئے تھے ہم نہ تھا جب تک خدا ملا

0
63