تصوّر میں حسیں نظّارے دیکھوں
میں اکثر خواب تیرے بارے دیکھوں
میں دیکھوں چاندنی پھیلی جو ہر سُو
منیر اک مہر کے لشکارے دیکھوں
محبّت سے تجھے جو دیکھتے ہیں
ملے فرصت تو چہرے سارے دیکھوں
کوئی چھوٹا بڑا رُکتا نہیں ہے
مسافر سب یہاں بے چارے دیکھوں
سفر دستور ہے شاید یہاں کا
روانہ ہوں جو ہر شب تارے دیکھوں
ہوئے ہیں صبح کے آثار ظاہر
قریب اب روشنی کے دھارے دیکھوں
مجھے ہجرت کئے مدّت ہوئی ہے
یہ جی چاہے کہ اپنے پیارے دیکھوں
ہے توڑی کب کسی طوفاں نے ہمّت
کہ میں اپنے ارادے ہارے دیکھوں
میں طارق ہو گیا ہوں اور صیقل
تمازت میں کھڑا انگارے دیکھوں

0
68