اس دل میں بھی تمنا شاہِ حجاز کی ہے
رحمت سے بخششوں کی سوز و گداز کی ہے
ہمت کہاں ہے میری مدحت کہوں نبی کی
کب آگہی مجھے دل عجز و نیاز کی ہے
مدحت سریٰ ہے بلبل ہستی کے ہر چمن میں
امداد جس کو حاصل قدرت سے ساز کی ہے
ہے آرزو کے دیکھوں حسنِ حضور میں بھی
مرضی ہے آگے جو بھی بندہ نواز کی ہے
ذکرِ جلیل ان کا وجہہ سکونِ دل ہے
اکسیر جس میں پنہاں عمرِ دراز کی ہے
ہیں جستجو میں مولا اس در کے ہی نظارے
جس جا سریر نوری دانائے راز کی ہے
محمود غم دہر کے دل سے نکال دے تو
ہر دم نگاہ تجھ پر شاہِ حجاز کی ہے

26