نظریں پھسل نہ جائیں ہو عاقِل کی احتیاط
کرتا ہے شیخ گرچہ مسائل کی احتیاط
میرے طریق پر چلیں گے جانے کتنے لوگ
کرنا ہے مجھ کو اپنے شمائل کی احتیاط
ہیں اس قدر کٹھن یہ عمل امتحان کے
کر پائے کون ایسے عوامل کی احتیاط
کتنے ہی دن لگا دئے چہرہ نمائی میں
دیکھی ہے سب نے یہ مہِ کامل کی احتیاط
دیکھا اُسے تو تیز ہوئیں اِس کی دھڑکنیں
شاید یہ ہے مرے دلِ بسمل کی احتیاط
اک آگ سی لگی ہے جو سینے میں رات سے
کرنی پڑے گی مشعلِ محفِل کی احتیاط
کہتا ہے کون ہو گیا مجھ سے پرے ہے وہ
اُس نے درونِ دل ذرا ، حا ئل کی احتیاط
طارق جہاں میں اس طرح غفلت میں مت گزار
لازِم ہے ہر قدم پہ وسائل کی احتیاط

1
236
عامر رضا حاتم صاحب پسندیدگی کا بہت شکریہ نوازش

0