نظریں پھسل نہ جائیں ہو عاقِل کی احتیاط |
کرتا ہے شیخ گرچہ مسائل کی احتیاط |
میرے طریق پر چلیں گے جانے کتنے لوگ |
کرنا ہے مجھ کو اپنے شمائل کی احتیاط |
ہیں اس قدر کٹھن یہ عمل امتحان کے |
کر پائے کون ایسے عوامل کی احتیاط |
کتنے ہی دن لگا دئے چہرہ نمائی میں |
دیکھی ہے سب نے یہ مہِ کامل کی احتیاط |
دیکھا اُسے تو تیز ہوئیں اِس کی دھڑکنیں |
شاید یہ ہے مرے دلِ بسمل کی احتیاط |
اک آگ سی لگی ہے جو سینے میں رات سے |
کرنی پڑے گی مشعلِ محفِل کی احتیاط |
کہتا ہے کون ہو گیا مجھ سے پرے ہے وہ |
اُس نے درونِ دل ذرا ، حا ئل کی احتیاط |
طارق جہاں میں اس طرح غفلت میں مت گزار |
لازِم ہے ہر قدم پہ وسائل کی احتیاط |
معلومات