گنبد کو توڑ دو گے مینار توڑ دو گے
تم مسجدیں بھی شاید دو چار توڑ دو گے
آخر کو کیا ملے گا کلمہ تمہیں مٹا کے
حق کا جو ہو رہا تھا اظہار توڑ دو گے
ایمان سے منوّر توڑو گے دل یہ کیسے
ان پر رقم خدا کا کیا پیار توڑ دو گے
نقصاں کرو گے کس کا ثابت کرو گے کیا تم
جب باغ کے شجر تم پھلدار توڑ دو گے
آپس میں گو لڑو تم سازش تو یہ کرو تم
توحید کا دلوں سے اقرار توڑ دو گے
تم نفس کے پجاری ایمان سے ہو عاری
کرسی ملے تو دیں کا پندار توڑ دو گے
کلمہ سے کیا غرض ہے مقصد فساد سے ہے
جس کے لئے ہر اک حد ہر بار توڑ دو گے
پہلے بھی تم سے آئے حربے سب آزمائے
کچھ بھی نہ کام آئے اوزار توڑ دو گے
ہم جیل میں گئے ہیں پہلے بھی اس کی خاطر
سینے بنیں گے پھر سے دیوار توڑ دو گے
تاریخ کو اُٹھا کر دیکھو تو اک نظر تم
تم نے کئے جو وعدے ہر بار توڑ دو گے
تم آئینے سے ڈر کے چہرہ چھپا رہے ہو
آئین خود ہی اک دن سرکار توڑ دو گے
طارق لکھا ہے کلمہ ہر احمدی کے دل پر
ان سے کہو یہ دل پھر اک بار توڑ دو گے

0
63