چلے جو دھوپ میں پھر جسم نے تو جلنا تھا |
جو سایہ بن کے چلا ساتھ اس کے چلنا تھا |
قدم رکھا تھا جوانی میں کچھ دنوں پہلے |
خبر نہیں تھی اسے اتنی جلدی ڈھلنا تھا |
وہ ہم سے پہلے مسافر تھے حوصلے والے |
وگرنہ ہم نے کہاں راستہ بدلنا تھا |
ہمیں ملی ہے جو ہر سمت سے پذیرائی |
سبب تو اس کا بنا شہر سے نکلنا تھا |
جھکے ہیں بادشاہ تسلیم کر کے قدموں میں |
حسد کی آگ میں تو حاسدوں نے جلنا تھا |
ہے نفرتوں کو کیا خون میں اگر شامل |
تو ان کے دل میں محبّت نے کیسے پلنا تھا |
اگر نہ رحمتِ یزداں سے ہو قبولِ دعا |
عذاب آیا ہوا کوئی کیسے ٹلنا تھا |
ہے طارق اس کا ہوا ہر قدم پہ جُود و کرم |
تو دل اسی کی محبّت میں پھر مچلنا تھا |
معلومات