نشّۂ عشق میں اک جلوے نے سر شار کیا |
داستاں اپنی ہی لے کر اسے اشعار کیا |
تجھ کو دیکھا ہے تو کھو بیٹھے ہیں سب عقل و خرد |
کیسی مشکل سے ترے حسن نے دو چار کیا |
تُو نے اظہار وفا ایسے کیا ہے مجھ سے |
یوں لگے مجھ کو مرے یار نے بیمار کیا |
تیرے آ جانے سے دل زور سے دھڑکا میرا |
جو خوشی دل کو ملی چہرے سے اظہار کیا |
اب چلے جاتے ہیں کچھ لوگ اسی رستے پر |
تُو نے جس رستے پہ انعاموں کا انبار کیا |
آ گئے چاہنے والے تو یہ در وا پایا |
تُو نے ملنے سے کسی کو بھی نہ انکار کیا |
لوگ یوں ہی تو نہیں جان لُٹاتے تجھ پر |
تُو نے خود ان کو محبّت میں گرفتار کیا |
عالمِ شوق میں اک کیف تجھے پانے کا |
رقص بے ساختہ دل نے مری سرکار کیا |
ایک جذبہ ہے مجھے لے کے چلا آیا ہے |
میں نہیں جانتا کب کس نے یہ تیاّر کیا |
شکر کرنے کو مجھے تیرا نہ الفاظ ملیں |
تُو نے ابلیس کے ہر حربے کو بے کار کیا |
اس کی یہ خاص عطا ہے جو یہ تو فیق ملی |
تُو نے طارق سرِ محفل جو یہ اقرار کیا |
معلومات