نشّۂ عشق میں اک جلوے نے سر شار کیا
داستاں اپنی ہی لے کر اسے اشعار کیا
تجھ کو دیکھا ہے تو کھو بیٹھے ہیں سب عقل و خرد
کیسی مشکل سے ترے حسن نے دو چار کیا
تُو نے اظہار وفا ایسے کیا ہے مجھ سے
یوں لگے مجھ کو مرے یار نے بیمار کیا
تیرے آ جانے سے دل زور سے دھڑکا میرا
جو خوشی دل کو ملی چہرے سے اظہار کیا
اب چلے جاتے ہیں کچھ لوگ اسی رستے پر
تُو نے جس رستے پہ انعاموں کا انبار کیا
آ گئے چاہنے والے تو یہ در وا پایا
تُو نے ملنے سے کسی کو بھی نہ انکار کیا
لوگ یوں ہی تو نہیں جان لُٹاتے تجھ پر
تُو نے خود ان کو محبّت میں گرفتار کیا
عالمِ شوق میں اک کیف تجھے پانے کا
رقص بے ساختہ دل نے مری سرکار کیا
ایک جذبہ ہے مجھے لے کے چلا آیا ہے
میں نہیں جانتا کب کس نے یہ تیاّر کیا
شکر کرنے کو مجھے تیرا نہ الفاظ ملیں
تُو نے ابلیس کے ہر حربے کو بے کار کیا
اس کی یہ خاص عطا ہے جو یہ تو فیق ملی
تُو نے طارق سرِ محفل جو یہ اقرار کیا

1
41
بہت شکریہ منیب صاحب! ممنون ہوں

0