کچھ الگ سا ہے اس سے پیار مجھے
کوئی اس سا ملا نہ یار مجھے
وہ گیا تو مجھے خیال آیا
اس کی صحبت کا تھا خُمار مجھے
کب ملاقات ہو گی پھر اس سے
اب تو رہتا ہے انتظار مجھے
وہ بلائے گا اپنی محفل میں
اس پہ اتنا ہے اعتبار مجھے
جو کہے اس کو مان جاتا ہوں
دل پہ اتنا ہے اختیار مجھے
چھوڑ کر آ پڑا ہوں اس کے در
راس آیا نہ روزگار مجھے
جرم اتنا تھا سچ کہا سچ کو
یونہی کرتے ہیں سنگسار مجھے
اپنا چہرہ دکھا کے مرہم رکھ
تُو نے دیکھا ہے دل فِگار مجھے
یاد آتی ہے اس کی جب طارق
روز کرتی ہے بے قرار مجھے

0
45