لب پر جو نام آیا عزت مآب کا
در کھل گیا کرم سے عالی جناب کا
خوشبو ملی چمن کو عطرِ نبی سے ہے
گل فیض لے رہا ہے آقا کے باب کا
آتا ہے ہجر کو بھی کلمہ حضور کا
پتھر کو دان آیا ان کے خطاب کا
کھاری بئر ہیں میٹھے چشمے رواں ہوئے
اک فیض دستِ رحمت اک ہے لعاب کا
مفقود ہیں وہ پہلے قانون جتنے آئے
کتنا عُلی ہے درجہ قرآں کتاب کا
دینِ نبی سے بھاگی ظلمت جہان سے
ڈنکا بجا دہر میں اس انقلاب کا
محمود یادِ دلبر ان کی نوازشیں
ہے فیض یاب جس سے بردہ جناب کا

45