یوں تو آیا بہار کا موسم
سُونا من رہ گیا بنا پریتَم
گو چمن میں گلاب کِھلتے ہیں
کوئی اُس سا لگے مگر کم کم
دلرُبا اور بھی بہت دیکھے
کوئی رکھتا نہیں ہے وہ دَم خَم
دل بھر آیا جو یاد میں اُس کی
آنکھ نے پھر تو ہونا ہی تھا نم
چار سُو وہ ہمیں نظر آئے
ہم بُھلائیں تو کیسے اُس کا غم
غیر ہم نے جنہیں خیال کیا
وہ بھی بھرتے ہیں سارے اُس کا دم
ہم کو یہ احتیاط لازم ہے
ہم سے ہو جائے کوئی کیوں برہم
اُس کی یاد آگئی یونہی طارق
جانے کب شعر ہو گئے یہ رقم

0
25