انا سے خود کو چھڑاؤں کیسے
راز دل کا میں بتاؤں کیسے
اشک آنکھوں میں بھرے ہیں اتنے
پیار دنیا سے چھپاؤں کیسے
وہ تو رگ رگ میں مری بیٹھا ہے
اس کو اندر سے اٹھاؤں کیسے
بس یہی خواب اثاثہ میرے
ان کو مرنے سے بچاؤں کیسے
مجھ کو آگے کی طرف جانا ہے
اپنے ماضی کو بھلاؤں کیسے
دل میں اک پھیلتا ہوا صحرا
پھول صحرا میں کھلاؤں کیسے
کوچۂ یار بھی اب راس نہیں
اب کہیں اور میں جاؤں کیسے

0
61