میں خود اپنی انا سے ڈرتا ہوں
اک دیا ہوں ہوا سے ڈرتا ہوں
زہر پیتا ہوں زندگی کے لیے
بعد میں میں دوا سے ڈرتا ہوں
در کھلا روز چھوڑ دیتا ہوں
رات بھر میں بلا سے ڈرتا ہوں
میکدے میں چلا تو جاتا ہوں
پر وہاں میں خدا سے ڈرتا ہوں
اس زمیں پر سکوں نصیب نہیں
اسی دشتِ خطا سے ڈرتا ہوں
شکوے کرتا ہوں میں خدا سے مگر
پھر میں اس کی قضا سے کرتا ہوں
ریت پر گھر کھڑا کیا شاہدؔ
اب میں بادِ صبا سے ڈرتا ہوں

109