زندگی بھر بھاگتے سا یوں کا ہی پیچھا کیا |
ہر چمکتی چیز کو سونا اگر سمجھا کیا |
سامنا کرنے کی تیرے حسن کی ہمّت نہ تھی |
بس تماشا دور ہی سے بزم کا دیکھا کیا |
تُجھ کو شکوہ ہے جہاں میں گھومتا پھرتا رہا |
ہر گلی جا کر پتہ تیرا ہی تو پوچھا کیا |
جانتا ہے تُو بھی اس کو جس کے احساں مجھ پہ ہیں |
کون ہے جس نے یہاں قبلہ مرا سیدھا کیا |
کیسے رہ سکتا ہوں زندہ تیرے پانی کے بغیر |
تُو نے ہی سرسبز یہ دل کا شجر سُوکھا کیا |
تُو دکھائے تب ہی مل سکتا ہے سیدھا راستہ |
جس نے چھوڑا تجھ کو اپنا راستہ اندھا کیا |
سجدہ گہ میں آنکھ کے پانی سے ہم نے بارہا |
دل میں شب بھر پیار کو تیرے فقط گوندھا کیا |
طارق آ جاتی ہے جب بھی یاد اس کی دفعتاً |
اس سے ملنے کا ارادہ ہم نے بھی باندھا کیا |
معلومات