دوسری اس پہ نظر میں نے تو ڈالی بھی نہیں |
اس نے دیکھا تھا مجھے خام خیالی بھی نہیں |
میں نے داغوں سے تو دامن کو بچا کر رکھا |
یہ الگ بات گناہوں سے یہ خالی بھی نہیں |
مہرباں مجھ پہ رہی ذات وہ احساں اس کا |
زندگی میری رہی ایسی مثالی بھی نہیں |
ہاتھ پھیلایا ہے جب بھی تو اسی سے مانگا |
ایک اس در کے سوا میں تو سوالی بھی نہیں |
دوستی کی ہے جہاں شرط نہیں رکھی ہے |
دشمنی کی کوئی بنیاد تو ڈالی بھی نہیں |
اس نے تصویر دکھائی ہے جو دنیا کو مری |
سچ کہوں وہ تو مرے دیکھنے والی بھی نہیں |
منتظر لوگ ازاں دے کی ہیں آئے کوئی |
وہ محبّت بھی نہیں روح بلالی بھی نہیں |
جب غزل میں نے سنائی تو پسند آئی پر |
لوگ کہنے لگے انداز جمالی بھی نہیں |
اُس نے اک بار کہا تھا کہ ملوں گا تم سے |
میں نے وہ بات ابھی دل سے نکالی بھی نہیں |
طارق اب اور کہاں جاؤ گے بے گھر ہو کر |
چھوڑ کر دنیا اگر جنّتِ عالی بھی نہیں |
معلومات